Skip to main content

Posts

آپریشن بُنیان مرصوص۔ Bunyaan Marsoos

اب دنیا میں پاکستان ایک الگ  حیثیت  سے ابھرے گا"۔" !ان شاء اللہ بہادری و شجاعت بہادر اور نڈر قوم کی ضمانت ہوتی ہے۔ پاکستان عرصہِ دراز سے مختلف مسائل میں گھرا تھا۔ معاشی  بحران ہو  یاں امن و امان کی صورتِ حال۔ دشمن نے بھی  ہمیں اندرونی بیرونی مسائل اور لڑائیوں میں الجھائے رکھنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔  پاکستان کا وجود دشمنوں کی آنکھ میں کس طرح کھلتا ہے اِس بات سے ہم سب واقف ہیں اور  ہم خود  بھی عرصہ دراز سے انڈیا کی مکاری و عیاری دیکھتے آرہے ہیں۔ اس کا اندازہ اس جنگ کے دوران بھی  ہماری عوام کو بہ خوبی ہوگیا ہوگا کہ کس طرح پاکستان کو نقصان پہنچانے کے لیے  کون کون سے  ممالک  بھارت کے ساتھ کھڑے تھے ۔ لیکن یہ سچ ہے کہ جب اللہ کی مدد آپ کے ساتھ ہو تو دشمن آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ آج دنیا نے پاکستان کی افواج کی بالخصوص ہماری پاک فضائیہ کی قابلیت کے نظارے دیکھے۔ کہ کس طرح انھوں نے پاکستان کا دفاع کیا۔اپنا نقصان روک کر دشمن کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔  یہ محض جنگ کے چند دن نہیں  تھے بلکہ یہ اِس دور کی بہت بہت بہت بڑی ض...

2024 ایک جھلک میں۔

دو ہزار چوبیس بھی اپنے اختتام کو پہنچا یہ سال سیاسی سماجی معاشی اعتبار سے کیسا گزرا۔ اس سال بھی اسرائیل کی جانب سے مظلوم ف ل س طینیوں پر ظلم و بربریت جارہی رہی۔ اسرائیلی فوج فلسطین کے مختلف علاقوں پر مسلسل حملے کرتی رہی جس کے نتیجے میں  تقریباََ 43 ہزار فلسطینی شہید جبکہ ایک لاکھ سے زیادہ زخمی  اور ملبوں تلے لاپتا افراد کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔  رہائشی عمارات اسکول  کالج دفاتر  کے ساتھ ہسپتالوں پر بھی شدید بمباری کی گئ۔ غرض یہ کہ عام شہری اور جنگجوؤں میں کوئی فرق نہیں کیا جا رہا جو کہ سرہاََ فلسطینیوں کی نسل کشی کے مترادف ہے۔  اسرائیل کی جانب سے امدادی کاروائیوں میں رکاوٹیں مسلسل جاری ہیں۔ غرض ہر قسم کی ظلم و بربریت کا بازار گرم کیے رکھا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے فسلطینیوں پر پچیس ہزار ٹن گولہ بارود  استعمال کیا گیا  ہے۔ اس زہریلے مواد گیس  سے غزہ کی فضاء زہر آلود ہے اور اِس غیر انسانی سلوک کے خطرناک اثرات آئندہ آنے والی نسلوں تک کے لیے خطرے کے باعث ہوں گے۔  اسرائیل کی جانب سے نہ صرف امدادی کاروائیوں میں رکاوٹیں ڈالی جاری ہیں بلکہ سوشل میڈی...

ایک دوسرے کو برداشت کیجیے۔

سانحہ ڈسکہ ایک دوسرے کو برداشت کیجیئے پچھلے دنوں ڈسکہ شہر میں دل کو دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا۔ جس میں ساس , نند  نے  خاندان کے دو آدمیوں کے ساتھ مل  کر  اپنی سات ماہ کی حاملہ بہو  زہرہ قدیر کو  منہ پر تکیہ رکھ کر قتل کیا پھر لاش کے ٹکڑے کر کے اور شناخت مٹانے کے لیے سر کو تن سے علیحدہ کر کے چولہے پر جلایا   اور لاش کو نالے میں بہا دیا۔ زہرہ کے قتل میں ملوث اس کی ساس , نند ,نند کا بیٹا اور ایک رشہ دار پولیس کی  زیرِ حراست ہیں۔ پڑھ کر اندازہ کیجیے کہ کس قدر ظالم اور سفاک لوگ تھے ۔  دھیان میں رکھیے گا کہ یہ  عورت صرف  ساس نہیں بلکہ  زہرہ کی سگی خالہ بھی تھی۔ زہرہ کا شوہر سعودیہ میں مقیم تھا ۔ زہرہ بھی شوہر اور ڈھائی سالہ  بیٹے کے ساتھ سعودیہ میں ہی رہتی تھی لیکن اکثر پاکستان بھی آتی رہتی تھی اور اس واقعہ سے پہلے اپنے والد کے ساتھ اپنے میکے میں رہ رہی تھی کہ ساس اور نند نے دھوکے سے اپنے گھر بلایا اور قتل کر ڈالا۔ بیٹی سے جب کچھ دن تک فون پر والد کا رابطہ نہ ہوسکا تو انھوں نے پولیس میں رپورٹ لکھوائی جس کے بعد اصل کہانی س...
ہمارا معاشرہ جس اخلاقی یتیمی سے گزر رہا ہے وہاں ایک دوسرے کے ساتھ جینے کے بجائے ایک دوسرے کا جینا حرام کر کے جینے کا سلسلہ رائج ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان  کا ذہنی سکون برباد  کر رہا ہے۔ اور اپنے اس گھناؤنے فعل کو  غلط  سمجھتا بھی نہیں۔  دوسرں کی زندگیوں میں بے جا مداخلت۔  ایک دوسرے کے نجی معاملات میں دخل انداذی۔ ٹوہ لگائے رکھنا اپنا فرض سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔ ہم جن نبی ﷺ کے امتی ہیں انھوں نے کسی سے اس کی ذات سے متعلق غیر ضروری سوال کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ نہ کہ کسی کی ذاتیات میں مداخلت کرنا۔  آج کل لوگ  Mental health Mental peace کے بارے میں بہت بات کرتے ہیں یقین جانیے  کہ آج کے وقت میں  امن، شانتی دماغی سکون ، صرف  جیو اور جینے دو کے اُصول میں ہی چُھپا ہے۔ دنیا بھر میں دس اکتوبر کو  مینٹل ہیلھ ڈے Mental health Day منا کر ذہنی مسائل کے  بارے میں آگاہی فراہم کر رہے ہیں۔ بہ حیثیت مسلمان  ہمارے کامل دین نے ہم پر ایک دوسرے کے حوالے سے رہنے کے طریقے کے بارے میں بہت باریک بینی سے  چودہ سو سال پہلے ہی  وضاحت فرما...

14 August

 جیسے کہ آپ سب کو معلوم ہے کہ  اگست کا مہینہ جو کہ آزادی کا مہینہ ہے شروع ہو چکا ہے اور 14  اگست قریب آرہی ہے۔ ہمارے ہاں لوگ بچوں کو باجے دلا دیتے ہیں اور وہ باجے بجا بجا کر دوسروں کا جینا حرام کرتے ہیں۔ ہم سب کے گھروں میں بچے موجود ہیں اور یاد رکھیں یہ باجے بجانے والے  اس معاشرے کے گھروں کے ہی بچے ہیں  خلائی مخلوق نہیں ہیں۔ کسی کے گھر میں مریض ہوتے ہیں کسی گھر میں چھوٹے  بچے ہوتے ہیں جو کہ اس خوفناک آواز  سے ڈر جاتے ہیں۔  کوئی اپنے گھر میں عبادت میں مصروف ہوتا ہے  کسی کے آرام کا وقت ہوتا ہے اور یہ ناگوار شور اُن کو پریشان کرتا ہے اور یہ انتہائی نازیبا عمل ہے اور    اگر ہر فیملی کا سربراہ اپنے بچے کو اس فعل سے روکے گا ان پر سختی کریں گے تو یہ تکلیف دہ شرارت معاشرے سے ختم ہوگی۔   کیوں کہ  یہ عمل ایذائے مسلم ہے۔ مسلمان کو تکلیف دینے کا سبب اور ذریعہ ہے جو کہ ایک ناجائز عمل ہے۔ اس  کی روک تھام پر سختی سے  عمل کیا جائے اپنے اپنے گھروں میں اس باجے پر پابندی لگائی جائے کہ آپ کا بچہ اس چیز کو گھر میں نہ لا سکے۔ آپ ...
  تو جناب بھارت نے ورلڈ کپ کی ٹرافی اپنے نام کرلی۔ اور ہمارے ہاں کیا ہورہا ہے؟ اونٹوں کے پاؤں کاٹے جا رہے ہیں انسانوں کے ساتھ  ساتھ بے زبان جانوروں  پر بھی ظلم ہورہا ہے۔ عورتوں کو بالوں اور گریبانوں سے گھسیٹا جا رہا ہے۔ عدت پوری ہوئی تھی کہ نہیں یہ گواہیاں مانگی جا رہی ہیں احرام اتروا کر حج پہ جانے سے روکا جا رہا ہے۔ گھروں میں گھس کر بندے اٹھائے جا رہے ہیں۔ جو انسانوں پر ظلم میں ملوث ہیں ان کو بے زبان جانوروں پر ہونے والا ظلم کہاں دکھائی دے گا؟ یعنی کہ بےشرمی بے حسی اور بیغیرتی کی کوئی حد نہیں چھوڑی ہمارے ملک میں۔ جو دنیا میں کہیں نہ ہوا ہو وہ یہاں ڈنکے کی چوٹ پر کیا جا رہا ہے۔ کیوں؟ کیوں کہ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ قانون کی پاسداری نہیں ہے۔ آئے دن نت نئے مسائل میں عوام گِھری جا رہی ہے کوئی پرسانِ حال نہیں۔ بجٹ کا ایٹم بم عوام کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ ملک میں بد امنی کی فضاء قائم ہے۔ آئے دن چوری ڈکیتی کی ہزاروں وارداتیں پیش آرہی ہیں مگر  کوئی نوٹس لینے والا نہیں ہے۔ کوئی ادارہ ایسا نہیں جو اس ملک کے یہ بنیادی مسائل حل کر سکے۔ 

عید الاضحی اور قربانی

  قربانی کا مقدس مہینہ شروع ہوچکا ہے۔ ہر طرف جانوروں کی آمدورفت کا سلسلہ شروع ہے۔  دس ذالحجہ کے دن اللہ کی راہ میں جانور قربان کرنا دینِ اسلام  کا اہم ترین رکن ہے جو کہ ہر صاحبِ استطاعت پر فرض کیا گیا ہے۔ سورۃ الحج کی 37 آیت میں اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ  اللہ تعالی تک نہ تو  تمھارے جانور کا گوشت پہنچتا ہے نہ خون بلکہ تمھارا تقوی پہنچتا ہے۔  عبادت کے لیے عشرہ ذوالحجہ کے  یہ دس دن خاص اہمیت کے حامل ہیں۔  اللہ تعالی نے ان ایام کو خاص اہمیت بخشی ہے۔ اللہ کے نزدیک ذوالحجہ کے عشرے میں عبادت کرنا جس قدر  پسندیدہ ہے اتنا دوسرے دنوں میں نہیں، ان دنوں میں سے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر اور ہر رات کی عبادت شب قدر کی عبادت کے برابر ہے۔  (جامع ترمذی) آپ ﷺ نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ سے ارشاد فرمایا کہ  اے فاطمہ اٹھو اور  اپنی قربانی کے پاس ذبح کے وقت موجود رہو اسلیے کہ اُس کے خون کا پہلا قطرہ گرنے کے ساتھ ہی تمھارے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے۔ یہ قربانی کا جانور قیامت کے  دن اپنے گوشت اور خون کے ساتھ لایا جائے گا اور تمھارے ترا...